انسان میں نیچےؔ گرنے کا بھی مادہ ہے اور اوپر اُٹھائے جانے کا بھی ۔ اور کسی نے اس بارے میں سچ کہا ہے۔ حضرتِ انساں کہ حدِّ مشترک راجا مع است می تواند شد مسیحا مے تواند خرشدن لیکن اس جگہ مشکل یہ ہے کہ نیچے جانا انسان کے لئے سہل امر ہے گویا ایک طبعی امر ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو ایک پتھر اوپر کو بہت مشکل سے جاتا ہے اور کسی دوسرے کے زور کامحتاج ہے لیکن نیچے کی طرف خود بخود گر جاتا ہے اور کسی کے زور کا محتاج نہیں۔ پس انسان اوپر جانے کے لئے ایک زور آو ر ہاتھ کا محتاج ہے۔ اِسی حاجت نے سلسلہ انبیاء اور کلام الٰہی کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اگرچہ دنیا کے لوگ سچے مذہب کے پرکھنے کے معاملہ میں ہزارہا پیچ در پیچ مباحثات میں پڑ گئے ہیں اور پھر بھی کسی منزل مقصود تک نہیں پہنچے لیکن سچ بات یہ ہے کہ جومذہب انسانی نابینائی کے دُور کرنے اور آسمانی برکات کے عطا کرنے کیلئے اس حد تک کامیاب ہوسکے جو اس کے پیروکی عملی زندگی میں خدا کی ہستی کا اقرار اورنوع انسان کی ہمدردی کا ثبوت نمایاں ہو وہی مذہب سچا ہے اور وہی ہے جو اپنے سچے پابند کو اس منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے جس کی اُس کی رُوح کو پیاس لگادی گئی ہے۔ اکثر لوگ صرف ایسے فرضی خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور جس کی سکتی اور طاقت صرف قصوں اور کہانیوں کے پیرایہ میں بیان کی جاتی ہے۔ پس یہی سبب ہوتا ہے کہ ایسا فرضی خدا اُن کو گناہ سے روک نہیں سکتا بلکہ ایسے مذہب کی پیروی میں جیسے جیسے اُن کا تعصب بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فسق و فجور پر شوخی اور دلیری زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے اور نفسانی جذبات ایسی تیزی میں آتے ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر ارد گرد پانی اُس کا پھیل جاتاہے اور کئی گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتاہے۔ وہ زندہ خدا جو قادرانہ نشانوں کے شعاع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے وہی ہے جس کاپانا اور دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے اور سچی سکینت اور شانتی اور تسلی بخشتا ہے اور استقامت اور دلی بہادری کو عطا فرماتا ہے۔ وہ آگ بن کر