دیکھؔ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لَاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔ انسانی فطرت ایک ایسے درخت کی طرح واقع ہے جس کے ایک حصہ کی شاخیں نجاست اور پیشاب کے گڑھے میں غرق ہیں اور دوسرے حصے کی شاخیں ایک ایسے حوض میں پڑتی ہیں جو کیوڑہ اور گلاب اور دوسری لطیف خوشبوؤں سے پُر ہے اور ہر ایک حصے کی طرف سے جب کوئی ہوا چلتی ہے تو بدبو یاخوشبو کو جیسی کہ صورت ہو پھیلا دیتی ہے۔ اِسی طرح نفسانی جذبات کی ہوا بدبو ظاہر کرتی ہے اور رحمانی نفحات کی ہوا پوشیدہ خوشبو کو پیرایۂ ظہور و بروز پہناتی ہے۔ پس اگر رحمانی ہوا کے چلنے میں جو آسمان سے اُترتی ہے روک ہو جائے تو انسان نفسانی جذبات کی تندو تیز ہواؤں کے ہر طرف سے طمانچے کھاکر اور اُن کی بدبوؤں کے نیچے دب کر ایسا خدائے تعالیٰ سے منہ پھیر لیتاہے کہ شیطان مجسم بن جاتا ہے اور اسفل السافلین میں گرایا جاتا ہے اور کوئی نیکی اُس کے اندر نہیں رہتی اور کفر اور معصیت اور فسق و فجور اور تمام رذائل کے زہروں سے آخر ہلاک ہو جاتا ہے اور زندگی اُس کی جہنمی ہوتی ہے اور آخر مرنے کے بعد جہنم میں گرتا ہے اور اگر خدائے تعالیٰ کا فضل دستگیر ہو اور نفحاتِ الٰہیہ اُس کے صاف اور معطّر کرنے کے لئے آسمان سے چلیں اور اُس کی رُوح کو اپنی خاص تربیت سے دمبدم نورانیت اور تازگی اور پاک طاقت بخشیں تو وہ طاقت بالا سے قوت پاکر اس قدر اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے کہ فرشتوں کے مقام سے بھی اوپر گذر جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ