گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ
اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ
یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا
کچھ بھی مدد نہ کی نہ سنی کوئی بھی دُعا
جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کردیا
سب کام اپنی قوم کا برباد کردیا
سبؔ جدوجہد وسعی اکارت چلی گئی
کوشش تھی جس قدر وہ بغارت چلی گئی
کیا ’’راستی کی فتح‘‘ نہیں وعدہ ء خدا
دیکھو تو کھول کر سخنِ پاک کبریا
پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی
یا خود تمہاری چادرِ تقویٰ ہی پھٹ گئی
کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو
پھر میرے فائدہ کا ہی سب کاروبار ہو
پھر یہ نہیں کہ ہوگئی ہے صرف ایک بات
پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تفضلات
دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام
لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام
جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا
جس کا ہر ایک دشمنِ حق عیب پوش تھا
جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی
جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی
اُن میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے
اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے
ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا
سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا
پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پاگیا
ساتھ اُس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا
کذّاب نام اس کا دفاتر میں رہ گیا
چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا
اے ہوش و عقل والو یہ عبرت کا ہے مقام
چالاکیاں تو ہیچ ہیں تقویٰ سے ہوویں کام
جو متقی ہے اُس کا خدا خود نصیر ہے
انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے
جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتّقا
جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اُس کا سب رہا