اے قوم کے سرآمدہ اے حامیانِ دیں
سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں
تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتّقا
پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا
ہوگا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد
جب مجھ پہ کی تھی تہمت خوں ازرہِ فساد
جب آپ لوگ اُس سے ملے تھے بدیں خیال
تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال
پر وہ خدا جو عاجز و مسکیں کا ہے خدا
حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کردیا
تمؔ نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی
یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جانی تھی
تھے چاہتے صلیب پہ یہ شخص کھینچا جائے
تاتم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے
جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا
آخر مری مدد کیلئے خود اُٹھا خدا
ڈگلس پہ سارا حال بریّت کا کھل گیا
عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بَری ہوا
الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام
تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتّہام
جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف
اِک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف
دیکھو یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا
اب بن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا
اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور
اب قیدیا صلیب ہے اک بات ہے ضرور
بعضوں کو بددُعا میں بھی تھا ایک انہماک
اِتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک
القصّہ جہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا
اِک سُو تھا مگر ایک طرف سجدہ و دُعا
آخر خدا نے دی مجھے اُس آگ سے نجات
دُشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ التفات
کیسا یہ فضل اُس سے نمودار ہوگیا
اِک مفتری کا وہ بھی مددگار ہوگیا
اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کرکے یاد
خود مارتا وہ گردنِ کذّاب بدنہاد