مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں
ایسا ہی پاؤگے سخنِ کردگار میں
کوئیؔ بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا
جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا
اِس بدعمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت
پس کس طرح خدا کو پسند آگئی یہ ریت
کیا تھا یہی معاملہ پاداشِ اِفترا
کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا
کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا
یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا
آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار
بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار
تم بدبنا کے پھر بھی گرفتار ہوگئے
یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہوگئے
تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس
لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس
جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اُس کا نام
وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اس کے کام
کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے
مُردوں سے نیز فرقہء ناداں زنانہ سے
اُس کے گمان میں ہم بدوبدحال ہوگئے
اُن کی نظر میں کافر و دجّال ہوگئے
ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں
بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں
پر ایسے کفر پر تو فدا ہے ہماری جاں
جس سے ملے خدائے جہان وجہانیاں
*** ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم
سَوشکر ہے کہ ہوگئے غالب کے یار ہم
ہوتا ہے کردگار اسی رہ سے دستگیر
کیاجانے قدر اس کا جو قصوں میں ہے اسیر
وحی خدا اِسی رہِ فرّخ سے پاتے ہیں
دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں
اے مدعی نہیں ہے تیرے ساتھ کردگار
یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار