میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں دنیا کی خیر ہے مری موت و زوال میں *** ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں عزّت نہیں ہے ذرّہ بھی اُس کی جناب میں توریت میں بھی نیز کلام مجید میں لکھا گیا ہے رنگِ وعیدِ شدید میں کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا ہوگا وہ قتل ہے یہی اِس جرم کی سزا پھر یہ عجیب غفلت ربِّ قدیر ہے دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے پچیس سال سے ہے وہ مشغولِ افترا ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا ہرؔ روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات کہتا ہے یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یامعیں کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقتِ انتظام تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام اپنا تو اُس کا وعدہ رہا سارا طاق پر اوروں کی سعی و جہد پہ بھی کچھ نہیں نظر کیاوہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اسقدر وفا آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بَری جب دشمن اُسکوپیچ میں کوشش سے لاتے ہیں کوشش بھی اسقدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں اِک اتفاق کرکے وہ باتیں بناتے ہیں سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں ذلّت ہیں چاہتے۔ یہاں اِکرام ہوتا ہے کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے