جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں آخر ذلیل ہوگئے انجامِ جنگ میں اِن کینوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہِ فنا تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھائیں عدم کی راہ یا حاکموں سے پھانسی دلا کر کریں تباہ یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جاپڑوں یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں یا مخبری سے ان کی کوئی اَور ہی بلا آجائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا پس ایسے ہی ارادوں سے کرکے مقدمات چاہا گیا کہ دن مرا ہوجائے مجھ پہ رات کوؔ شش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی پھر اتفاق وہ کہ زماں میں نہ ہو کبھی مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے سمجھا گیا میں بدپہ وہ سب نیک ہوگئے آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے اُترا مری مدد کیلئے کرکے عہد یاد پس رہ گئے وہ سارے سیہ رُوئے و نامراد کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا اِک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے اُن کی نظر میں حال مرا ناپسند ہے