شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا
شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما
شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو
شاید وہ آزمائشِ ربِّ غفور ہو
پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک
خود سرپہ اپنے لے لیا خشمِ خدائے پاک
گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے
پھر اِتّقا کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے
موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہوگیا
قرآں میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا
بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار
تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار
پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مرگئے
یہ کیسی عقل تھی کہ براہِ خطر گئے
بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا
جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا
پسؔ تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے
دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
وہ اِک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا
یہ ہے حدیث سیّدنا سیّد الورٰی
پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکّار کہتے ہیں
اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں
اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں
یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہرزماں
دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پاکے شہرۂ عالم بنا دیا
جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا
میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی
جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی
ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات
کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات