اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو اُس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو *** کی ہے یہ راہ سو *** کو چھوڑ دو ورنہ خیالِ حضرتِ عزّت کو چھوڑ دو تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول تاتم پہ ہو ملائکہء عرش کا نزول اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا ترکِ رضائے خویش پئے مرضیء خدا جو مرگئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات اِس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجزممات شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے اے کرمِ خاک چھوڑ دے کبروغرور کو زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضئ مولیٰ اِسی میں ہے تقوؔ یٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سوسوکئے جتن سب عضو سست ہوگئے غفلت ہی چھاگئی قوت تمام نوکِ زباں میں ہی آگئی یا بدزباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں تم دیکھ کر بھی بدکو بچو بدگمان سے ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے