بِن دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے
اِس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے
تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گوسپند
نَے مار مُردہ سے ہے کچھ اندیشۂ گزند
پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا
پس کیا امید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا
ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو
سینہ میں اُسکے عشق سے کیونکر تپاک ہو
بِن دیکھے کس طرح کسی مَہ رُخ پہ آئے دل
کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حُسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی
جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں
بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں
سَوروگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے
اِس قید میں ہر ایک گنہ سے رہائی ہے
پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں
کیونکر نثار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں
ہر چیز میں خدا کی ضیا کا ظہور ہے
پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دور ہے
جو ؔ خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
عاشق جو ہیں وہ یار کومَرمَرکے پاتے ہیں
جب مرگئے تو اُسکی طرف کھینچے جاتے ہیں
یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے
دلبر کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے
ناپاک زندگی ہے جو دوری میں کٹ گئی
دیوار زُہد خشک کی آخر کوپَھٹ گئی
زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں
مقبول بن کے اُس کے عزیزو حبیب ہیں
وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں
ہر دم اسیرِ نخوت و کبر و غرور ہیں
تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو