اِس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھاگئی
دُنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی
تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے
ہر دم کے خبث و فسق سے دل پر پڑے حجاب
آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب
جس کو خدائے عزوجل پر یقیں نہیں
اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں
پر وہ سعید جوکہ نشانوں کو پاتے ہیں
وہ اُس سے مل کے دل کو اُسی سے ملاتے ہیں
وہ اُس کے ہوگئے ہیں اُسی سے وہ جیتے ہیں
ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اِک جام پیتے ہیں
جس مَے کو پی لیا ہے وہ اُس مَے سے مَست ہیں
سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پَست ہیں
کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوب یار سے
ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے
اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں
یہ اس لئے کہ عاشقِ یارِ یگانہ ہیں
اُن کو خدانے غیروں سے بخشی ہے امتیاز
اُن کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز
جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں
جب بدشعار لوگ اُنہیں کچھ ستاتے ہیں
جبؔ اُن کے مارنے کیلئے چال چلتے ہیں
جب اُن سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں
تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے
غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے
کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے
اُس ذاتِ پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے
آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے
جن کو نشانِ حضرت باری ہوا نصیب
وہ اُس جنابِ پاک سے ہردم ہوئے قریب
کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے
کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہوگئے