قِصّوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے قِصّوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے ممکن نہیں وصالِ خدا ایسی راہ سے مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کرسکے اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذرسکے وہ رہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے وہ رہ جو یارِ گم شدہ کو ڈھونڈلاتی ہے وہ رہ جو جامِ پاک یقین کا پلاتی ہے وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں اُن کا اثر نہیں افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے سچ ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے کوئی بتائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھایئے ورنہ گزاف قصوں پہ ہرگز نہ جایئے جب سے کہ قصے ہوگئے مقصود راہ میں آگے قدم ہے قوم کا ہردم گناہ میں تم دیکھتے ہو قوم میں عِفّت نہیں رہی وہ صدق وہ صفا وہ طہارت نہیں رہی مو ؔ من کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی اُس یار بے نشاں کی محبت نہیں رہی اِک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے کیوں بڑھ گئے زمیں پہ بُرے کام اس قدر کیوں ہوگئے عزیزو! یہ سب لوگ کور و کر کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں کیوں اس قدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے کچھ اِک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے