اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا جنت بھی ہے یہی کہ ملے یارِ آشنا اَے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں اِس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اِک نظر سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر اِک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے اِک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے اِک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے پھر دفن کرکے گھر میں تاسّف سے آئیں گے اے لوگو! عیشِ دنیا کو ہرگز وفا نہیں کیا تم کو خوفِ مرگ و خیالِ فنا نہیں سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گذر گئے وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو ملتی نہیں عزیزو فقط قصوں سے یہ راہ وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں صد حیف اِس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا اِنحصار پر نقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں پس یہ خدائے قِصّہ خدائے جہاں نہیں دنیاؔ کو ایسے قِصّوں نے یکسر تبہ کیا مُشرک بنا کے کُفر دیا روسیہ کیا جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار اُس کے لئے حرام جو قصّوں پہ ہو نثار اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور تا ہووے شک و شبہ سبھی اُس کے دِل سے دُور تا اُس کے دل پہ نُورِ یقیں کانزول ہو تا وہ جنابِ عزّوجل میں قبول ہو