جاڑے کی رُت ظہور سے اُسکے پلٹ گئی
عشقِ خدا کی آگ ہر اک دل میں اٹ گئی
جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے
پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے
موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے
جو کُفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے
قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
جو لوگ شک کی سردیوں سے تھرتھراتے ہیں
اس آفتاب سے وہ عجب دھوپ پاتے ہیں
دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر
سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرّہ بھر
پر یہ کلام نورِ خدا کو دکھاتا ہے
اسکی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے
جس دیں کا صرف قصوں پہ سارا مدار ہے
وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گذار ہے
سچ پوچھیئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے
قصوں میں جھوٹ اور خطا بے شمار ہے
ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں
زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں
ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہوعیاں
خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں
جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں
اُنکو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں
جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبارہے
قصوں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے
پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں
گویا وہ ربِّ ارض و سما اب ہے ناتواں
گویا اب اُس میں طاقت و قدرت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ زور وہ شوکت نہیں رہی
یا ؔ یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی
نیت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی
ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے
ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے