ہے شکر ربِّ عزّوجل خارج از بیاں جس کی کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا اُس سے خدا کا چہرہ نمودار ہوگیا شیطاں کا مکر و وسوسہ بیکار ہوگیا وہ رَہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے وہ رہ جو یارگم شدہ کو کھینچ لاتی ہے وہ رہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے وہ رہ جو اُس کے ہونے پہ محکم دلیل ہے وہ رَہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا افسردگی جو سینوں میں تھی دور ہوگئی ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی جو ؔ دَور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے چلنے لگی نسیم عنایاتِ یار سے