یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ انہیں حصص براہین احمدیہ میں فرماتا ہے۔ انتَ منّی بمنزلۃٍ لا یعلمھا الخلق ۔ یعنی تیرا میرے نزدیک وہ مقام ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ یہ جواب اِسی قسم کا ہے جیسا کہ آدم کی نسبت قرآن شریف میں ہے۔3 3۱؂ بلکہ یہی آیتیں بعینہٖ اگرچہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں نہیں مگر دوسری کتابوں میں میری نسبت بھی وحی الٰہی ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ تیسری آدم سے مجھے یہ بھی مناسبت ہے کہ آدم توام کے طور پر پیدا ہوا اور میں بھی توام پیدا ہوا۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی بعدہٗ میں۔ اور باایں ہمہ میں اپنے والد کیلئے خاتم الولد تھا۔ میرے بعد کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اور میں جمعہ کے روز پیدا ہوا تھااو ر آدم کا حواسے پہلے پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ سلسلہ دنیا کا مبدء ہے۔ اور میرا اپنی توام ہمشیرہ سے بعد میں پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں دنیاکے سلسلہ کے خاتمہ پر آیا ہوں۔ چنانچہ چھٹے ہزار کے آخر میں میری پیدائش ہے اور قمری حساب کی رو سے اب ساتواں ہزار جاتا ہے۔ اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ہے۔ ولا تخاطبنی فی الّذین ظلموا اِنّھم مُغْرقون۔ یعنی میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کروں گا۔ خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے۔ اس حساب سے اب یہ زمانہ اُس وقت پر آپہنچتا ہے جبکہؔ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا۔ اصنع الفلک باعیننا ووحینا۔ انّ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق ایدیھم ۔یعنی میری آنکھوں کے روبرو اور میرے حکم سے کشتی بنا۔ وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ نہ تجھ سے بلکہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یہی بیعت کی کشتی ہے جو انسانوں کی جان اور ایمان بچانے