مگر اب میں اس سخت دل قوم کا کیا علاج کروں کہ نہ قسم کو مانتے ہیں نہ نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پرغور کرتے ہیں۔ آسمان نے بھی نشان دکھلائے او رزمین نے بھی۔ مگر ان کی آنکھیں بند ہیں اب نہ معلوم خدا انہیں کیادکھلائے گا۔ اِس جگہ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرانام عیسیٰ ہی نہیں رکھا بلکہ ابتدا سے انتہا تک جس قدر انبیاء علیھم السّلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرانام آدم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اردتُ اَن استخلف فخلقتُ اٰدم دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۴۹۲۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے سبحان الذی اسری بعبدہ لیلًا خلق اٰدم فاکرمہ۔ دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۵۰۴ دونوں فقروں کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کیا یعنی اس عاجز کو۔ پھر فرمایا پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں تمام سیر کرا دیا۔ پیدا کیا اِس آدم کو ۔ پھر اس کو بزرگی دی۔ ایک ہی رات میں سیر کرانے سے مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام تکمیل ایک ہی رات میں کردی اور صرف چار پہر میں اس کے سلوک کو کمال تک پہنچایا اور خدا نے جو میرانام آدم رکھا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بنی آدم کی روحانیت پر موؔ ت آگئی تھی پس خدا نے نئی زندگی کے سلسلہ کا مجھے آدم ٹھہرایا اور اس مختصر فقرہ میں یہ پیشگوئی پوشیدہ ہے کہ جیساکہ آدم کی نسل تمام دنیا میں پھیل گئی ایسا ہی میری یہ روحانی نسل اور نیز ظاہری نسل بھی تمام دنیامیں پھیلے گی۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جیساکہ فرشتوں نے آدم کے خلیفہ بنانے پر اعتراض کیا اور خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرکے کہا کہ آدم کے حالا ت جو مجھے معلوم ہیں وہ تمہیں معلوم نہیں یہی واقعہ میرے پر صادق آتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ وحی الٰہی درج ہے کہ لوگ میری نسبت ایسے ہی اعتراض کریں گے جیسے کہ آدم علیہ السلام پر کئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وان یتخذونک اِلا ھزوًا أھٰذا الذی بعث اللّٰہ۔ جاھل اومجنون۔ یعنی تجھے لوگ ہنسی کی جگہ بنا لیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہی شخص خدا نے مبعوث فرمایا ہے