ایک کرناء بجائے گا اور اس کرناء کی آواز سے ہر ایک سعیدؔ اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا بجز اُن لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں 3 ۱؂۔ اوریہ بات کہ وہ نفخ کیا ہوگا۔ اور اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کی تفصیل وقتاً فوقتاً خود ظاہر ہوتی جائے گی۔ مجملاً صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ استعدادوں کو جنبش دینے کے لئے کچھ آسمانی کارروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے ۔ اور کیا یہ وہی انسان نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس امت میں سے وہ مسیح ہوکر آئے گا جو عیسیٰ بن مریم کہلائے گا تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گا اور طاقت بالا اُس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی اور اُس کے تمام تعصب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تِنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر بھسم ہو جاتا ہے غرض اُس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا۔ اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں نہ وہ زمین ہے اور نہ وہ آسمان۔ جیسا کہ مجھے پہلے اس سے ایک کشفی رنگ میں دکھلایا گیا تھا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے اور کشفی رنگ میں یہ بنانا میری طرف منسوب کیا گیا کیونکہ خدا نے اس زمانہ کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ لہٰذا اس نئے آسمان اور نئی زمین کا میں ہی موجب ہوا اور ایسے استعارات خدا کی کلام میں بہت ہیں لیکن اس جگہ شاید بعض نادانوں کو یہ اشکال پیش آوے کہ اگرچہ یہ تو صحیح مسلم اور بخاری میں آچکا ہے کہ آنے والامسیح اسی امت میں سے ہوگا اور قرآن شریف میں بھی سورہ ء نور میں مِنْکُمْ کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر ایک خلیفہ اسی اُمت میں سے ہوگا اور آیت33۲؂ بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ کوئی امر غیر معمولی نہیں ہوگا بلکہ جس طرح صدر زمانہ اسلام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم