تھا جو انگلینڈ کی باشندہ ہے اس جماعت میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح اور کئی خط امریکہ انگلینڈ روس وغیرہ ممالک سے متواتر آرہے ہیں اور وہ تمام خطوط متعصّب منکروں کے منہ بند کرنے کے لئے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایک بھی ضائع نہیں کیا گیا اور دن بدن اِن ممالک میں ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے قدرتی طور پر ایک جوش پیدا ہو رہا ہے اور تعجب ہے کہ وہ خود بخود ہمارے سلسلہ سے مطلع ہوتے جاتے ہیں اور خدائے کریم و رحیم و حکیم ان کے دلوں میں ایک اُنس اور محبت اور حسن ظن پیدا کرتا جاتاہے اور صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے طیاری کر رہے ہیں اور وہ اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ ایک سخت پیاسا یا سخت بھوکا جو شدت بھوک اور پیاس سے مرنے پر ہو اور یکدفعہ اُس کو پانی اور کھانا مل جائے۔ اسی طرح وہ اس سلسلہ کے ظہور سے خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس زمانہ میں اسلام کی شکل کو تفریط اور افراط کے سیلاب نے بگاڑ دیا تھا ایک فرقہ جو محض زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتا ہے وہ قطعاً اسلامی برکات سے منکر ہوچکا تھا اور معجزات اور پیشگوئیوں سے نہ صرف انکار بلکہ دن رات ٹھٹھا اور ہنسی کرتا تھا اور معاد کے واقعات کی اصل حقیقت نہ سمجھ کر اس سے بھی تمسخر اور انکار سے پیش آتا تھا اورعباداتِ اسلاؔ میہ سے جن سے روحانیت کے دروازے کھلتے ہیں سبکدوش ہوناچاہتا تھا غرض دہریت سے بہت قریب جا رہا تھا اور صرف نام کا مسلمان تھا۔ اور وہ امر جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایسا مابہ الامتیاز ہے جوکوئی شخص اپنی طاقت سے اپنے مذہب میں وہ حصہ امتیازی نشان کا داخل کر ہی نہیں سکتا اُس سے وہ بالکل بے خبر تھا۔ یہ تو تفریط والوں کا حال تھا اور دوسرے فریق نے افراط کی راہ اختیار کرلی تھی یعنی ایسے بے اصل قصّے اور بیہودہ کہانیاں جو کتاب اللہ کے برخلاف ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا