مجھے یوسف قرار دے کر فرمایا قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔جسؔ کے یہ معنے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خداکی گواہی ہے جو انسانوں کی گواہیوں پر غالب ہے پس کیا تم اس گواہی کو مانتے ہو یا نہیں؟ اس فقرہ سے یہ مطلب ہے کہ اے شرارتیں کرنے والو اور تہمتیں لگانے والو! اگرتم خدا کی اس گواہی کوقبول نہیں کرتے جو اُس نے آج سے پچیس۲۵ سال پہلے دی تو پھر خدا کسی اور نشان سے گواہی دے گا جس سے تم ایک سخت شکنجہ میں پڑوگے تب رونااور دانت پیسنا ہوگا۔پس میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی دوسری گواہیاں بھی شروع ہوگئیں اور مجھے خدا نے اپنے الہام سے یہ بھی خبر دی ہے کہ جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا میں اُسی تیر سے اس کاکام تمام کروں گا۔اور اس وحی الٰہی میں جو مجھے یوسف قرار دیا گیا ہے یہ بھی ایک فقرہ ہے کہ ولتنذرقومًا ماانذر اٰباء ھم فھم غافلون۔ اس آیت کے معنے پہلی آیت کو ساتھ ملانے سے یہ ہیں کہ ہم نے اس یوسف پر احسان کیا کہ خود اس کی بریّت کی شہادت دی تاوہ بُرائی اور بے حیائی جو اس کی طرف منسوب کی جائے گی اس کو ہم اُس سے پھیر دیں اور دفع کردیں اور ہم یہ اس لئے کریں گے کہ تا انذار اور دعوت میں حرج نہ آوے کیونکہ خدا کے رسولوں اور نبیوں اور ماموروں پرجو یہ اندھی دنیا طرح طرح کے الزام لگاتی ہے اگر ان کو دفع نہ کیا جائے تواس سے دعوت اور انذار کا کام سُست ہو جاتا ہے بلکہ رُک جاتا ہے اور ان کی باتیں دلوں پر اثر نہیں کرتیں اورمعقولی رنگ کے جواب اچھی طرح دلوں کے زنگ کو دُور نہیں کر سکتے۔ پس اس سے اندیشہ ہوتاہے کہ لوگ اپنی بدگمانیوں سے ہلاک نہ ہو جائیں اور ہیزم دوزخ نہ بن جائیں۔ لہٰذا وہ خدا جو کریم اور رحیم ہے جو اپنی مخلوق کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اپنے زبردست نشانوں کے ساتھ اپنے نبیوں کی صفائی اور اصطفاء اور اجتباء کی شہادت دیتا ہے اور جو شخص ان گواہیوں کو پاکربھی اپنی بدظنیوں سے باز نہیں آتا اُس کے ہلاک ہونے کی خدا کو کچھ بھی پروا نہیں۔ خدا اُس کادشمن ہو جاتا ہے