کہ خدا کی شہادت اور انسان کی شہادت برابر نہیں ہوسکتی۔ پس وہ شہادت یہی شہادت ہے کہ وہ جو عالم الغیب ہے وہ پچیس۲۵ سال پہلے اس زمانہ سے مجھے یوسف قرار دے کر اس کے واقعات میرے پر منطبق کرتا ہے اور ایسی خصوصیت کے الفاظ بیان فرماتا ہے جس سے حقیقت کھلتی ہے جیسا کہ اس کا میری طرف سے یہ فرمانا کہ333۱ ظاہر کر رہا ہے کہ کسی آئندہ واقعہ کی طرف یہ اشارہ ہے لیکن چونکہ یوسف بھی شریر لوگوں کی بدگمانیوں سے نہیں بچ سکا تو پھر ایسے لوگوں پر مجھے بھی افسوس کرنا لاحاصل ہے جو میرے پر بدگمانی کریں۔ ہر ایک جو مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے کیونکہ وہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اُس پر حملہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے وہی فرماتا ہے کہ اِنِّیْ مھینٌ من اراد اھانتک۔یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے ایسا شخص خدا تعالیٰ کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں*۔ یہ مت گمان کرو کہ وہ میرے لئے نشانوں کا دکھلانا بس کردے گا ۔ نہیں بلکہ وہ نشان پر نشان دکھلائے گا اور میرے لئے اپنی وہ گواہیاں دے گا جن سے زمین بھر جائے گی۔ وہ ہولناک نشان دکھلائے گا اور رعب ناک کام کرے گا۔ اس نے مدت تک ان حالات کو دیکھا اور صبر کرتارہا مگر اب وہ اس مینہ کی طرح جو موسم پر ضرور گرجتا ہے گرجے گا اور شریر روحوں کو اپنے صاعقہ کا مزا چکھائے گا۔ وہ شریر جو اس سے نہیں ڈرتے اور شوخیوں میں حد سے بڑھ جاتے ہیں وہ اپنے ناپاک خیالات اور بُرے کاموں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں مگر خدا اُنہیں دیکھتا ہے کیا شریر انسان خدا کے ارادوں پر غالب آسکتا ہے ؟ کیا وہ اس سے لڑکر فتح پاسکتا ہے ؟ اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے
یہ آیت کہ3 ۲ بآواز بلند بتلا رہی ہے کہ فرعونی صفات لوگ اپنی بیجا تہمتوں پر فخر کریں گے مگر خدا اپنے بندہ کو نجات دے گا پھر حملہ کرنے والوں کے آگے ایک دریا ہے جس میں اُن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ منہ