اور اس کے مقابل پر خود کھڑا ہوجاتا ہے۔ شریر انسان خیال کرتا ہے کہ میرے مکر دُنیا کے دلوں پر بُرا اثر ڈالیں گے مگر خدا کہتا ہے کہ اے احمق! کیا تیرے مکرمیرے مکر سے بڑھ کر ہیں؟ میں تیرے ہی ہاتھوں کو تیری ذلّت کا موجب کروں گا اور تجھے تیرے دوستوں کے ہی آگے رُسوا کرکے دکھلاؤں گا۔اور اس جگہ مجھے یوسف قرار دینے سے ایک اور مقصد بھی مدّنظر ہے کہ یوسف نے مصر میں پہنچ کر کئی قسم کی ذلّتیں اٹھائی تھیں جو دراصل اُس کی ترقی ء مدارج کی ایک بنیاد تھی مگر اوائل میں یوسف نادانوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوگیا تھا اور آخر خدا نے اُس کو ایسی عزّت دی کہ اُس کو اسی ملک کا بادشاہ بناکر قحط کے دنوں میں وہی لوگ غلام کی طرح اس کے بنا دیئے جو غلامی کاداغ بھی اُس کی طرف منسوب کرتے تھے پس خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہؔ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا اور روحانی زندگی کے ڈھونڈنے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی اور اسی بندۂ درگاہ پر جو بول رہا ہے ہر ایک نشان کا انعام ہوگا پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندۂ حضرت عالی کی طرف رجوع کریں گے اور یوسف کی طرح یہ عزت مجھے اسی توہین کے عوض دی جائے گی بلکہ دی گئی جس توہین کو ان دنوں میں ناقص العقل لوگوں نے کمال تک پہنچایا ہے۔ اور گومَیں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں آیا مگر میرے لئے آسمان پر سلطنت ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی اور مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کرلیں گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔ یَخِرُّون عَلَی الْاَذْقان سُجَّدًا۔ ربّنا اغفرلنا اناکنا خاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللّٰہ لکم وھو ارحم الرّاحمین*۔ اور میں نے کشفی طور پر
ترجمہ ۔ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ خدایا ہم خطاکار تھے ہم نے گناہ کیا۔ ہمارے گناہ بخش۔ پس خدا فرمائے گا کہ تم پر کوئی سرزنش نہیں کیونکہ تم ایمان لے آئے خدا تمہارے گناہ بخش دے گا کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ اس جگہ بھی خدا نے لا تثریب کے لفظ کے ساتھ مجھے یوسف ہی قرار دیا۔ منہ