غرض وہ خدا جو بدگمانوں کے گندے خیالات کا بھی علم رکھتا ہے اُس نے مجھے یوسف قرار دے کر اور میری نسبت میری زبان سے یوسف علیہ السلام کا وہ قول نقل کرکے جو سورہ یوسف میں آچکا ہے یعنی یہ کہ333 ۔ آئندہ زمانہ کی نسبت ایک پیشگوئی کی ہے تا وہ میرے اندرونی حالات کو لوگوں پر ظاہر کرے۔ اگرچہ میں یہ عادت نہیں رکھتا اور طبعاً اس سے کراہت کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اپنی دلی پاکیزگی ظاہر کروں بلکہ یوسف کی طر ح میرا بھی یہی قول ہے کہ3333333 مگرخدا کے لطف و کرم کو میں کہاں چھپاؤں اور کیونکر میں اس کو پوشیدہ کر دوں۔اُس کے تواس قدر لطف و کرم ہیں کہ ؔ میں گن بھی نہیں سکتا۔ کیا عجیب کرم فرمائی ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ بدگمانیاں نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہیں خدا نے میرے لئے ہیبت ناک نشان دکھلائے۔ مثلاً غور کرو کہ وہ شدید زلزلہ جس کی ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء کو مجھے خبردی گئی جس نے ہزارہا انسانوں کو ایک دم میں تباہ کردیا۔ اور پہاڑوں کو غاروں کی طرح بنا دیا اُس کے آنے کی کس کو خبر تھی۔ کس نجومی نے مجھ سے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی وہ خدا ہی تھا جس نے قریباًایک برس پہلے مجھے یہ خبر دی ۔ اُسی وقت لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اخبارات شائع کی گئی ۔ اُس نے فرمایا کہ میں نشان کے طور پر یہ زلزلہ ظاہر کروں گا تا سعید لوگوں کی آنکھ کھلے۔ مگر میرے نزدیک براہین احمدیہ کی پیشگوئیاں اس سے کم نہیں ہیں جن میں اس زلزلہ شدیدہ کی بھی خبر ہے۔ اور یہ پیشگوئی یوسف قرار دینے کی بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس نے اس زمانہ کے نہایت گندہ حملوں کی آج سے پچیس۲۵ سال پہلے خبر دی ہے۔ یہ وہ ناپاک حملے ہیں جو نادان مخالفوں کے آخری ہتھیار ہیں اور بعد اس کے فیصلہ کا دن ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس موقعہ پرخدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون یہ اُس شہادت سے زیادہ زبردست ہے جو سورہ یوسف میں یہ آیت ہے 3۱؂ظاہر ہے