پہلوں نے غلطی کھائی ہے مگر وہ تو اس غلطی میں بھی ثواب ہی پر رہے کیونکہ مجتہد کے متعلق لکھا ہے قد یخطئ و یصیبکبھی مجتہد غلطی بھی کرتا ہے اور کبھی صواب۔مگر دونوں طرح پر اُسے ثواب ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مشیت ایزدی نے یہی چاہا تھا کہ ان سے یہ معاملہ مخفی رہے۔ پس وہ غفلت میں رہے اور اصحابِ کہف کی طرح یہ حقیقت ان پر مخفی رہی۔ جیسا کہ مجھے بھی الہام ہوا تھا۔ ’’ اَمْ حَسبت انّ اصحاب الکھف والرّقیم کانوا من اٰیاتنا عجبًا۔‘‘ اسی طرح مسیح کی حیات کا مسئلہ بھی ایک عجیب ِ سر ہے۔ باوجود یکہ قرآن شریف کھول کھول کر مسیح کی وفات ثابت کرتا ہے اوراحادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جو آیت استدلال کے طور پر پڑھی گئی وہ بھی اسی کو ثابت کرتی ہے مگر باوجود اس قدر آشکارا ہونے کے خد اتعالیٰ نے اس کو مخفی کر لیا اور آنے والے موعود کے لیے اس کو مخفی رکھا چنانچہ جب وہ آیا تو اس نے اس راز کو ظاہر کیا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ وہ جب چاہتا ہے کسی بھید کو مخفی کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اُسے ظاہر کر دیتا ہے۔ اسی طرح اس نے اس بھید کو اپنے وقت تک مخفی رکھا مگر اب جبکہ آنے والا آگیا اور اس کے ہاتھ میں اس ِ سرکی کلید تھی اس نے اسے کھول کر دکھادیا۔ اب اگر کوئی نہیں مانتا اور ضد کرتا ہے تو وہ گویا اﷲ تعالیٰ کا مقابلہ کرتا ہے۔ غرض وفات مسیح کا مسئلہ اب ایسا مسئلہ ہو گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اخفا نہیں رہا بلکہ ہر پہلو سے صاف ہو گیاہے۔ قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپؐ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں کیونکہ آپ نے شب معراج میں حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ دیکھا۔ اور پھر آیت 33 ۱؂ ۱؂ مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔کیونکہ جب کفارنے آپ سے آسمان پر چڑھ جانے کا