اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کونسی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآنِ شریف کی برابرحفاظت ہوتی چلی آئی ہے۔ایک لفظ اور نقطہ تک اس کا اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ اِس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک اور ہرقوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے۔ ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ آپ کے برکات اور زندہ برکات نہیں ہیں؟اور کیا ان سے آپ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟ غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کی رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدّد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپ کی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپ کی حیات ثابت ہوتی ہے۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اِس امر پر جس قدر غور کریں گے اُسی قدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔َ میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس عقیدہ سے بہت بڑا ضرر اُٹھایا ہے یہاں تک کہ چالیس کروڑ کے قریب لوگ عیسائی ہو چکے جو سچے خدا کو چھوڑ کر ایک عاجز انسان کو خدا بنارہے ہیں اور عیسائیت نے دنیا کو جو نفع پہنچایا ہے وہ ظاہر امر ہے۔ خود عیسائیوں نے اس امر کو قبول کیا ہے کہ عیسائیت کے ذریعہ بہت سی بد اخلاقیاں دنیا میں پھیلی ہیں۔ کیونکہ جب انسان کو تعلیم ملے کہ اس کے گناہ کسی دوسرے کے ذمہ ہوچکے تو وہ گناہ کرنے پر دلیر ہو جاتا ہے۔ اور گناہ نوع انسان کے لیے ایک خطرناک زہر ہے جو عیسائیت نے پھیلائی ہے۔ اس صورت میں اس عقیدہ کا ضرر اور بھی بڑھا جاتا ہے۔ َمیں یہ نہیں کہتا کہ حیات مسیح کے متعلق اسی زمانہ کے لوگوں پر الزام ہے۔ نہیں بعض