معجزہ مانگا تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو یہی جواب دیا کہ 33 ۱ ۔ یعنی میرا ربّ اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین میں پیدا ہوا اور یہاں ہی مرے گا۔ 3۲ ۔
مَیں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جاسکتی۔ اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی۔ چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے اس لیے اُنہوں نے موقعہ پاکر یہ سوال کیا۔ جس کا جواب اُن کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ پس یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح ؑ وفات پا چکے ۔ہاں یہ ایک معجزا نہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھااور ہوشیاروں کو مست بنادیا۔
یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں۔ ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی۔ اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے۔ مگراب وقت نہیں رہا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اس نقاب کو اُٹھادیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے ُ برے اور خوفناک اثروں کو ۔تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں سچ سچ کہتاہوں کہ ایسے ہی مسائل وہ لوگوں کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں۔ اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان اُن کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کر کے اسلام سے جدا کررہے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے۔*
پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہو جاویں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ہی ضروری ہے کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر گیا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بدقسمتی