فیض پاتی ہے اور آپ ہی سے تعلیم حاصل کرتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ُ محب بنتی ہے جیسا کہ فرمایا ہے۔ 33 ۱ پس خدا تعالیٰ کا پیار ظاہر ہے کہ اس امت کو کسی صدی میں خالی نہیں چھوڑتا ۔اور یہی ایک امر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر روشن دلیل ہے۔بالمقابل حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت نہیں۔ اُن کی زندگی ہی میں ایسا فتنہ برپا ہوا کہ کسی اور نبی کی زندگی میں وہ فتنہ نہیں ہوا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ ؑ سے مطالبہ کرنا پڑا کہ ۔33 ۲ یعنی کیا تونے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو۔جو جماعت حضرت عیسیٰ ؑ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور ناقابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔
انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو اُن کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے اُن میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔اس نے تیس روپیہ پر اپنے آقاو مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ میں بہشت کی کنجیاں تھیں۔یعنی پطرس۔ اس نے سامنے کھڑے ہوکر تین مرتبہ *** کی۔ جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا اور اب انیس۱۹۰۰ سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا۔ اس کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت طیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غرض آپ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی۔یہ کیسی زبردست تاثیر تھی۔ اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہی اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔اور پھر تاثیر کا ایک