ثبوت موجود ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ منجملہ ان کے ایک یہ بات ہے کہ زندہ نبی وہی ہو سکتاہے جس کے برکات اور فیوض ہمیشہ کے لیے جاری ہوں اور یہ ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کبھی بھی مسلمانوں کو ضائع نہیں کیا۔ ہر صدی کے سر پر اس نے کوئی آدمی بھیج دیا جو زمانہ کے مناسب حال اصلاح کرتارہا یہاں تک کہ ا س صدی پر اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں حیات النّبی کا ثبوت دوں۔ یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کرتا رہاہے اور کرے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے 3 ۱ ۔یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ 3 کا لفظ صاف طور پر دلالت کرتا ہے کہ صدی کے سر پر ایسے آدمی آتے رہیں گے جو گمشدہ متاع کو لائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب پہلی صدی گذرجاتی ہے تو پہلی نسل بھی اُٹھ جاتی ہے اور اس نسل میں جو عالم،حافظ قرآن، اولیاء اﷲ اور ابدال ہوتے ہیں وہ فوت ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر ضرورت ہوتی ہے کہ احیاء ملت کے لیے کوئی شخص پیدا ہو، کیونکہ اگر دوسری صدی میں نیا بندوبست اسلام کے تازہ رکھنے کے لیے نہ کرے تو یہ مذہب مر جاوے۔اس لیے وہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مامور کرتا ہے جو اسلام کو مرنے سے بچالیتا ہے اور اس کو نئی زندگی عطا کرتا ہے اور دنیا کو ان غلطیوں بدعات اور غفلتوں اور سستیوں سے بچالیتا ہے جو اُن میں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے اور یہ آپ کی حیات کی ایسی زبردست دلیل ہے کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس طرح پر آپ کے برکات و فیوض کا سلسلہ لا انتہا اور غیر منقطع ہے اور ہر زمانہ میں گویا اُمت آپ کا ہی