اس لیے کہ وہ یقین کرتے ہیں کہ سب انبیاء علیہم السلام مر گئے ہیں مگر مسیح کی موت بقول ان مخالف مسلمانوں کے ثابت نہیں کیونکہ توفّی کے معنے تو آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے کرتے ہیں۔اس لیے33 ۱؂ میں بھی یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ جب تونے مجھے زندہ آسمان پر اُٹھالیا۔ اور کوئی آیت ثابت نہیں کرتی کہ اس کی موت بھی ہوگی ۔ پھر بتاؤ کہ اُن کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے اور وہ اپنی غلطی کو سمجھیں۔میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مسلمان کہلا کر اس عقیدہ کی کمزوری اور شناعت کے کھل جانے پر بھی اس کو نہیں چھوڑتے وہ دشمن اسلا م اور اس کے لیے مارِ آستین ہیں۔ یاد رکھو اﷲ تعالیٰ بار بار قرآن شریف میں مسیح کی موت کا ذکر کرتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ دوسرے نبیوں اور انسانوں کی طرح وفات پا چکے ۔ کوئی امر ان میں ایسا نہ تھا جو دوسرے نبیوں اور انسانوں میں نہ ہو۔یہ بالکل سچ ہے کہ توفّی کے موت ہی معنے ہیں۔ کسی لغت سے یہ ثابت نہیں کہ توفّی کے معنے کبھی آسمان پر مع جسم اُٹھانے کے بھی ہوتے ہیں۔ زبان کی خوبی لغات کی توسیع پر ہے۔ دنیا میں کوئی لغت ایسی نہیں ہے جو صرف ایک کے لیے ہو اور دوسرے کے لیے نہ ہو۔ ہاں خدا تعالیٰ کے لیے یہ خصوصیت ضرور ہے اس لیے کہ وہ وَحدہٗ َ لا شریک خد اہے ۔لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفّیکے یہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسٰی کے لیے کہے ہوئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہاں کے لیے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوں گے۔اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھاؤ؟ اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدءِ شرک ہے۔ ا س غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھہرتے ہیں۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتے ہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اب بتاؤ کہ اس کے خد اہونے