جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا؟ اس قسم کے دلائل پیش کرکے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خد ابنانا چاہتے ہیں اور انہوں نے بنایا اور دنیا کے ایک حصہ کو گمراہ کر دیا اور بہت سے مسلمان جو تیس لاکھ سے زیادہ بتائے جاتے ہیں اس غلطی کو صحیح عقیدہ تسلیم کرنے کی وجہ سے اس فتنہ کا شکا رہو گئے۔ اب اگر یہ با ت صحیح ہوتی اور درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے جاتے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں اور مسلمان اپنی غلطی اور ناواقفی سے ان کی تائید کرتے ہیں تو پھر اسلام کے لیے تو ایک ماتم کا دن ہوتا کیونکہ اسلام تو دنیا میں اس لیے آیا ہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر دنیا کو ایک ایمان اور یقین پیدا ہو اور اس کی توحید پھیلے۔وہ ایسا مذہب ہے کہ کوئی کمزوری اس میں پائی نہیں جاتی اور نہیں* ہے۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کو وَحدہٗ َ لا شریک قرار دیتا ہے۔کسی دوسرے میں یہ خصوصیت تسلیم کی جاوے تو یہ تو اﷲ تعالیٰ کی کسر شان ہے اور اسلام اس کو روا نہیں رکھتا۔ مگر عیسائیوں نے مسیح کی اس خصوصیت کو پیش کرکے دنیا کو گمراہ کر دیا ہے اور مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے ان کی اس ہاں میں ہاں ملادی اور ا س ضرر کی پروا نہ کی جو اس سے اسلام کو پہنچا۔
اس بات سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہیئے جو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ کیا اﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مسیح کو زندہ آسمان پر اُٹھالے جاوے؟ بیشک وہ قادر ہے مگر وہ ایسی باتوں کو کبھی روا نہیں رکھتا جو مبدءِ شرک ہو کر کسی کو شریک الباری ٹھہراتی ہوں۔ اور یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک شخص کو بعض وجوہ کی خصوصیت دینا صریح مبدءِ شرک ہے۔ پس مسیح علیہ السلام میں یہ خصوصیت تسلیم کرنا کہ وہ تمام انسانوں کے برخلاف اب تک زندہ ہیں اور خواصِ َ بشری سے الگ ہیں۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جس نے عیسائیوں کو موقع دیا کہ وہ اُن کی خدائی پر اس کو بطور دلیل پیش کریں۔اگر کوئی عیسائی مسلمانوں پر یہ اعتراض کرے کہ تم ہی بتاؤ کہ ایسی خصوصیت اس وقت کسی اور شخص کو بھی ملی ہے؟تو اس کا کوئی جواب اُن کے پاس نہیں ہے