مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ
شاہد ہے آبِ دیدہ واقف بڑا یہی ہے
مَیںؔ دِل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے
دیں کے غموں نے مارا اَب دل ہے پارہ پارہ
دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے
ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے
اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے
برباد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم
رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے
وہ دؔ ن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں
اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے
جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے
شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہ ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے
دیکھیؔ ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھُدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے
اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بُلائے
سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے
ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن
اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو
اِس غم سے صادقوں کا آہ و بکا یہی ہے
سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر
یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ یہی ہے