کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمرہ وہ رہنما ہے رازِ چون و چرا یہی ہے دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کفر کا ہے اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سبؔ پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے اُس پر ہر اک نظر ہے بدرا لدّجٰی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس نے ہیں اُتارے مَیں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ نہانی دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے وہ طیّب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیا یہی ہے جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے پھر کھولے جس نے جندے* وہ مجتبیٰ یہی ہے جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اور