غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل پر اِس زماں میں لوگو نوحہ نیا یہی ہے ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی ہے ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صدق و صفا یہی ہے پر آریوں کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا یہی ہے جتنے نبی تھے آئے موسیٰ ہو یا کہ عیسیٰ مکّار ہیں وہ سارے اِن کی نِدا یہی ہے اِک وید ہے جو سچا باقی کتابیں ساری جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ نما یہی ہے یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ بنایا تنکا پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے اُس کے گماں میں اُس کا ارض و سما یہی ہے ویدوں کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا ان پُستکوں کی رُو سے کارج بَھلا یہی ہے جسؔ اِستری کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا سے ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے کیا ہے چارہ جب تک نہ ہوویں گیا۱۱رہ لڑکے رَوا یہی ہے ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو! اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا یہی ہے دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا ہے سب سے کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا یہی ہے ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے؟ ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چھپایا آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا یہی ہے