افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شپّر وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و جفا یہی ہے معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے اِکؔ ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دلوں کے گندے جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے اِن آریوں کا پیشہ ہردم ہے بدزبانی ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی پر اِن سیہ دلوں کا شیوہ سدا یہی ہے افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا ہے پیشہ کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ درا یہی ہے آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے کیا ُ جون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے لیکھو کی بدزبانی کارد ہوئی تھی اُس پر پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے اِن تیرہ باطنوں کے دل میں دغا یہی ہے جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو بطور احساں عادت ہے اِن کی کفراں رنج و عنا یہی ہے ہندو کچھ ایسے بگڑے دل پُر ہیں بغض و کیں سے ہر بات میں ہے توہیں طرزِ ادا یہی ہے جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر دل سے ہوویں صافی پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے احوالؔ کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے غم تو بہت ہیں دل میں پر جاں گزا یہی ہے دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم کی بُرائی پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے