نظم از مصنّف اسلام سے نہ بھاگو! راہِ ُ ھدیٰ یہی ہے اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے وہ دِلستاں نہاں ہے کِس رَاہ سے اُس کو دیکھیں اِن مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفا یہی ہے سب ؔ خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اِس کو یارو آبِ بقا یہی ہے اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے مِلتی ہے بادشاہی اِس دیں سے آسمانی اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما یہی ہے سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدّعا یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ اے گِرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی مرے پیارو زرّیں قبا یہی ہے