جو کریم و رحیم ہے اِس موت کے عوض میں دوسرے جہان میں اُن کو نجات کی زندگی بخشتا ہے کیونکہ اس کا کرم اور رحم اس بخل سے پاک ہے جو کسی انسان پر دو موتیں وارد کرے۔ سو انسان توبہ کی موت سے ہمیشہ کی زندگی کو خریدتا ہے اور ہم اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو پھانسی پر چڑھانے کے محتاج نہیں ہیں ہمارے لئے وہ صلیب کافی ہے جو اپنی قربانی دینے کی صلیب ہے۔ یا د رہے کہ توبہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی توبہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کرکے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی ؔ طرف چلا آتا ہے۔ سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اُسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلّی نفسِ ا ّ مارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانۂ حضرتِ احدّ یت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اِس موت کے عوض میں خدا تعالیٰ اُس کو زندگی بخشے۔ چونکہ آریہ لوگ صرف بہت سی جونوں کو مدار نجات سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے ان کا اس طرف خیال نہیں آتا ہے۔ نہیں جانتے کہ جس طرح میلا کپڑا بھٹی پر چڑھنے سے اور پھر دھوبی کے ہاتھ سے آب شفاف کے کنارہ پر طرح طرح کے صدمات اٹھانے سے آخرکار سفید ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح یہ توبہ جس کے معنے میں بیان کر چکا ہوں انسان کو صاف پاک کر دیتی ہے۔ انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اُس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔ کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے۔ پس یہ آگ جو محبتِ الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے۔ یہی نجات کی جڑ ھ ہے۔ اور ؔ نہایت افسوس تو یہ ہے کہ آریہ لوگ اپنے مذہب کی خرابیوں کو نہیں دیکھتے اور اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ کوئی بھی ان کا ایسا اعتراض نہیں جو ان کے مذہب کے کسی فرقہ کے طریق عمل میں وہ داخل نہیں۔ اب ہم اس رسالہ کو خدا کے نام پر ختم کرتے ہیں۔ الحمدللّٰہ اوّلًا و اٰخرًا ھو مَولانا نعم المولٰی و نعم النصیر۔