وہ پرمیشر کے ہاتھ سے گئی۔ پس اس طرح پر جب روحیں خرچ ہوتی رہیں تو بباعث اس کے کہ پرمیشر کوئی رُوح پیدا نہیں کر سکتا اور آمدن کی سبیل قطعًا بند تو ضرور ایک دن ایسا آجائے گا جبکہ پرمیشر کے ہاتھ میں ایک بھی رُوح نہیں رہے گی تاوہ دنیا میں بھیجی جائے۔ پس اس خیال سے پرمیشر نے یہ پیش بندی اختیار کر رکھی ہے جو ہمیشہ کی مکتی سے رُوحوں کو جواب دے دیا کرتا ہے اور دھکّے دے کر مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے۔
اس جگہ بعض نادان آریہ محض چالاکی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے مکتی بھی محدود رکھی گئی۔ مگر وہ دھوکہ کھاتے ہیں یا دھوکہ دیتے ہیں۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ کی اطاعت مرکوز ہے۔ نیک آدمی کب کہتے ہیں کہؔ اتنی مدّت کے بعد ہم خدا تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت چھوڑ دیں گے بلکہ اگر بے انتہا مدّت تک ان کو عمر دی جائے تب بھی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کرتے رہیں گے۔ اس صورت میں اگر وہ جلد مر جائیں تو ان کا کیا گناہ ہے۔ اُن کی نیّت میں تو ہمیشہ کی اطاعت ہے نہ کہ کسی حد تک اور تمام مدار نیّت پر ہے۔ اور موت جو انسان پر آتی ہے یہ خدا کا فعل ہے نہ کہ انسان کا۔
یہ ہیں عقائد آریہ صاحبوں کے جن پر وہ ناز کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے خیال میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ایک گناہ سے بھی بیشمار جونوں کی سزا درپیش ہے۔ اس لئے وہ گناہ سے پاک ہونے کے لئے کوئی کوشش کرنا عبث اور بے سود سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے مذہب میں کوئی مجاہدہ نہیں ہے جس کی رُو سے اسی دنیا میں انسان گناہ سے پاک ہو سکے جب تک تناسخ کے ذریعہ سے اور طرح طرح کی جونوں میں پڑنے سے سزا نہ پالے۔ پس ظاہر ہے کہ اس صورت میں کس اُمید پروہ کوئی مجاہدہ کر سکتے ہیں اگر وہ سوچیں۔ اور اگر ان کو روحانی فلاسفی کا کوئی حصہ نصیب ہو تو وہ جلدی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس عقیدہ کی وجہ سے خدائے کریم و رحیم کی رحمت کا دروازہ اپنے پرؔ بند کررہے ہیں۔ وہ توبہ سے صرف چند لفظ مراد لیتے ہیں مگر سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے۔ سو جو لوگ یہ سچی قربانی ادا کرتے ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں توبہ ہے۔ درحقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ