سوانح عمری ایسی پاک ہے کہ کسی قسم کا اُن سے گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اور کیا وہ آریہ اصولوں کی رُو سے تسلّی رکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہی مکتی پا جائیں گے۔ اور پھر جب مخلوقات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی تعداد کو دوسری مخلوقات سے وہ نسبت نہیں جو قطرہ کو دریا کی طرف ہوتی ہے۔ کیونکہ علاوہ ان تمام بے شمار جانوروں کے جو خشکی اور تری میں پائے جاتے ہیں ایسے غیر مرئی جانور بھی کرّۂ ہوا اور پانی میں موجود ہیں جو وہ نظر نہیں آسکتے جیسا کہ تحقیقات سے ثابت ہے کہ ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر زمانہ اور مدّت دراز گزر نے کے پرمیشر نے مکتی دینے میں ایسی ناقابل کارروائی کی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں کی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پرمیشر کیؔ ہرگز مرضی ہی نہیں کہ کوئی شخص مکتی حاصل کرسکے اور یا یوں کہو کہ وہ مکتی دینے پر قادر ہی نہیں۔ اور یہ بات بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر قادر ہو تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ دائمی نجات یا مکتی نہ دے سکے اور ایسا ہی باوجود دیالو اور قادر ہونے اس کے کے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیوں وہ ایسا چڑچڑا مزاج کاہے کہ ایک ذرا سے گناہ کو بھی بخش نہیں سکتا اور جب تک ایک گناہ کے لئے کروڑہا جونوں میں نہ ڈالے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر سے کس بہتری کی اُمید ہو سکتی ہے؟ اور جبکہ ایک شریف طبع انسان اپنے قصورواروں کے قصور ان کی توبہ اور درخواستِ معافی پر بخش سکتا ہے اور انسان کی فطرت میں یہ قوت پائی جاتی ہے کہ کسی خطاکار کی پشیمانی اور آہ وزاری پر اس کی خطا کو بخش دیتا ہے تو کیاوہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ اس صفت سے محروم ہے؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔
پس یہ آریوں کی غلطی ہے کہ اس خدا کو جس کووہ دیالو بھی کہتے ہیں اور سرب شکتی مان بھی سمجھتے ہیں اس کو اس عظیم الشان صفت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اورؔ یادرہے کہ انسان جو سراسر کمزوری میں بھرا ہوا ہے بغیر خدا کی صفت مغفرت کے ہرگز نجات نہیں پا سکتا۔ اور اگر خدا میں صفت مغفرت نہیں تو پھر انسان میں کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یاد رہے کہ نجات نہ پانا ایک موت ہے ایسا ہی سچی توبہ کرنا بھی ایک موت ہے۔ پس موت کا علاج موت ہے۔ کیا وہ خدا جو ہرایک چیز پر