ملاوامل اس بات کا بھی مجرم ہے کہ اُس نے یہ سب کچھ دیکھ کر پھر مخالفت کر کے اپنے پورے زور اور پوری مخالفت سے ایک اشتہار دیا تھا جس کو دس برس گزر گئے اور لوگوں کو روکا تھا کہ میری طرف رجوع نہ کریں اور نہ کچھ مالی مدد کریں۔ تب اس کے روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اشتہار کے بعد کئی لاکھ انسان میرے ساتھ شامل ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا۔ مگر پھر بھی اُس نے خدا کے ہاتھ کو محسوس نہ کیا۔ بالآؔ خر ہم اس بات کا لکھنا بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں کہ جس پرمیشر کو پنڈت دیانند نے آریوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ ایک ایسا پرمیشر ہے جس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ کیونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بدچلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اسی اپنے پہلے جنم میں مکتی کو پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے مکتی عنایت کرسکے بلکہ اُس کے لئے آریہ اصول کی رُو سے کسی دوسری ُ جون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میںآنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی جون کو چھوڑ کر کُتّا بنے یا بندر سؤر۔ مگر بننا تو ضرور چاہیئے۔ یہ پرمیشر ہے جس کو دیالو اور سرب شکتی مان کہا جاتا ہے۔ اگر انسان نے اپنی ہی کوشش سے سب کچھ کرنا ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر پرمیشر کا کس بات میں شکر ادا کیا جائے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بعض حصہ عمر میں ایسا زمانہ بھی آجاتا ہے کہ وہ کسی حد تک نفسانی جوشوں اور خواہشوں کا تابع ہوتا ہے۔ اور کم سے کم یہ کہ غفلت جو گناہوں کی ماں ہے ضرور کسی قدر اس سے حصہ لیتا ہے اور یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ کیا جسمانی پہلو کی رُو سے اور کیا رُوحانی پہلو کی رُوح سے ابتدا میں کمزوری میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر اگر خدا کا فضل شامل حال ہو تو آہستہ آہستہ پاکیزگی کی طرف ترقی کرتا ہے۔ پس یہ خوب پر ؔ میشر ہے جس کو انسان کی فطرت کی بھی خبر نہیں۔ اگر اسی طرح مکتی پانا ہے تو پھر مکتی کی حقیقت معلوم۔ ہم اس آزمائش کے لئے نہ صرف ایک آریہ کو مخاطب کرتے ہیں نہ دو کو نہ تین کو بلکہ نہایت یقین اور بصیرتِ تامّہ کی راہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے روبرو دوہزار یاد س ہزار یا بیس ہزار یا مثلاً ایک لاکھ ہی آریہ کھڑے ہو کر قسم کھاویں کہ کیا اُن کی