آئے ہیں جو بعض ہندو بعض سکھ اور بعض مسلمان ہیں اور ابھی بعض اُن کے بازار میں موجود ہیں۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ سب جھوٹ بولیں یہ کہہ کر چلا گیا اور مجھے اُس نے اُس وقت ایک دیوانہ سا خیال کیا۔ رات میری سخت بیقراری میں بسر ہوئی۔ صبح ہوتے ہی میں خودبٹالہ گیا۔ تحصیل میں حافظ ہدایت علی تحصیلدار موجود نہ تھا مگر اس کا سررشتہ دار متھرا داس نام موجود تھا جو اب تک زندہ ہوگا۔ مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدؔ مہ خارج ہوگیا؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہوئی۔ مَیں نے کہاکہ قادیان کے پندرہ سولہ آدمی جو فریق مخالف اور اس کے گواہ تھے۔ سب نے جاکر یہی بیان کیا ہے کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک طرح سے انہوں نے بھی جھوٹ نہیں بولا۔ بات یہ ہوئی کہ تحصیلدار کے فیصلہ لکھنے کے وقت میں حاضر نہ تھا۔ کسی کام کے لئے باہر چلا گیا تھا یا شاید یہ کہا تھا کہ مَیں پاخانہ پھرنے کے لئے چلا گیا تھا اور تحصیلدار نیا آیا ہوا تھا اور اُس کو پیچ در پیچ مقدمات کی خبر نہ تھی اور فریق مخالف نے اس کے فیصلہ لکھنے کے وقت ایک فیصلہ صاحب کمشنر کا اُس کے آگے پیش کیا تھا۔ اور اس میں صاحب کمشنر کا یہ حکم تھا کہ چونکہ یہ مزارعہ موروثی ہیں ا س لئے ان کا حق ہے کہ اپنے اپنے کھیت کے درخت ضرورت کے وقت کاٹ لیا کریں۔ مالک کا اس میں کچھ دخل نہیں۔ تحصیلدار نے اس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور جب مَیں آیا تو مجھے وہ اپنا لکھا ہوا فیصلہ دیا کہ شامل مِسل کردو۔ مَیں نے پڑھ کر کہا کہ ان زمینداروں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے کیونکہ جس فیصلہ کو انہوں نے پیش کیا ہے وہ صاحب فنانشل کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے۔ اور بموجب اس حکم کے کوئی مزارعہ موروثی ہو ؔ یا غیر موروثی بغیر اجازت مالک کے اپنے کھیت کا درخت نہیں کاٹ سکتا۔ اور مَیں نے مسل میں سے وہ فیصلہ ان کو دکھلا دیا۔ تب تحصیلدار نے فی الفور اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور دوسرا فیصلہ ڈگری کا لکھا اور کل خرچہ مدعا علیہم کے ذمہ ڈالا۔ فریق ثانی تو خوشی خوشی اپنے حق میں فیصلہ سُن کر قادیان کو چلے گئے تھے اُن کو اس دوسرے