تحصیل بٹالہ میں ہماری طرف سے نالش دائر کی گئی تھی کہ اُس نے بغیر اجازت ہماری کے اپنے کھیت سے درخت کاٹ لئے ہیں۔ تب خدا نے میرے دُعا کرنے کے وقت میری دُعا کو قبول فرما کر میرے پر یہ ظاہرکیا تھا کہ ڈگری ہوگئی۔ اور مَیں نے یہ پیشگوئی شرمپت کو بتادی تھی۔ پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حکم کے وقت ہماری طرف سے عدالت میں کوئی حاضر نہ تھا اور فریق ثانی حاضر ہوگئے تھے۔ قریب عصر کے وقت تھا کہ شرمپت نے ہماری مسجد میں آکر تمسخر کے طور پر مجھے یہ کہا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ ڈگری نہیں ہوئی۔ تب مجھ پر وہ غم گذرا جس کو مَیں بیان نہیں کر سکتاکیونکہ خدا کا قطعی طور پر کلام تھا۔ مَیں مسجد میں نہایت پریشانی سے بیٹھ گیا اِس خیال سے کہ ایک مشرک نے مجھے شرمندہ کیا۔ اور ؔ مَیں اُس کی اِس خبر سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ قریب پندرہ آدمی کے ہندو اور مسلمان بٹالہ سے یہ خبر لائے تھے۔ اس لئے نہایت درجہ کا غم مجھ پر طاری تھا۔ اتنے میں غیب سے ایک آواز آئی اور وہ نہایت رُعب ناک آواز تھی اس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’ڈگری ہوگئی ہے۔ مسلمان ہے؟‘‘ یعنی کیا تُو خدا کے کلام کو باور نہیں کرتا۔ ایسی آواز پہلے اس سے مَیں نے کبھی نہیں سُنی تھی۔ مَیں مسجد کے ہرطرف دوڑا کہ یہ بلند آواز کس کی طرف سے آئی۔ اور آخر معلوم ہوا کہ فرشتہ کی آواز ہے۔ یہ وہی فرشتے ہیں جن سے آج کل کے اندھے آریہ * انکار کرتے ہیں۔تب مَیں نے اُسی وقت شرمپت کو بلایا اور کہا کہ ابھی خدا کی طرف سے مجھے یہ آواز آئی ہے۔ اِس پر اُس نے پھر ہنس دیا اور کہا کہ بٹالہ سے پندرہ سولہ آدمی نادان آریہ کہتے ہیں کہ خدا کو کسی چٹھی رسان کی کیا حاجت ہے یعنی وہ فرشتوں کا محتاج نہیں۔پس یہ تو سچ ہے کہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں مگر اس کی عادت میں داخل ہے کہ وہ وسائط سے کام لیتاہے۔ اور وسائط سے کام لینا اس کے عام قانون قدرت میں داخل ہے۔ دیکھو وہ ہوا کے ذریعہ سے کانوں تک آواز پہنچاتا ہے۔ پس جسمانی سلسلہ سے یہ روحانی فعلؔ اس کا عین مطابق ہے جو روحانی کانوں کو اپنی آواز فرشتوں کے ذریعہ سے جو ہوا کے قائم مقام ہیں پہنچاوے اور ضرور ہے کہ جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں باہم مطابق ہوں۔ اور یہی دلیل قرآن شریف نے پیش کی ہے۔ منہ