اور لالہ شرمپت قسم کھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مدّت تک وہ میرے پاس یہی جھوٹ بولتا رہا کہ میرا بھائی بسمبر داس بَری ہوگیا ہے۔ اور پھر جب حافظ ہدایت علی جو اُن دنوں میں بٹالہ کا تحصیلدار تھا اتفاقاً قادیان میں آیا اور قریباً دس۱۰ بجے کا وقت تھا۔ تب بسمبرداس میرے مردانہ مکان کے نیچے اس کو ملا اور اُس نے بسمبرداس کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم خوش ہوئے کہ تم قید سےَؔ مخلصی پاگئے مگر افسوس کہ تم بَری نہ ہوئے۔ تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ تم کیوں اس قدرمدّت تک میرے پاس جھوٹ بولتے رہے کہ میرا بھائی بسمبرداس بَری ہو گیاہے۔ تو شرمپت نے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس لئے اصل حقیقت کو چھپایا کہ اصلیت ظاہر کرنے سے ایک داغ رہ جاتا تھا۔ اور آئندہ رشتوں ناطوں میں ایک رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی اور اندیشہ تھا کہ برادری کے لوگ ہمارے خاندان کو بدچلن خیال کریں۔ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جب بسمبرداس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نماز عشاء کے وقت جب میں اپنی بڑی مسجد میں تھا علی محمد نام ایک ملاّں ساکن قادیان نے جواب تک زندہ اور ہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظور ہوگئی اور بسمبر داس بری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے۔ تب اس غم سے میرے پروہ حالت گزری جس کو خدا جانتا ہے۔ اس غم سے مَیں محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گیا۔ تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی۔ جب مَیں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا لا تحزن انّک انت الاعلٰی۔ یعنی غم نہ کر تجھی کو غلبہ ہوگا۔ تب مَیں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی۔ اور حقیقت یہ ؔ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے یہ نہیں کہ بسمبرداس بَری کیا گیا ہے۔ پس شرمپت قسم کھاکر بتلاوے کہ کیا یہ واقعہ نہیں گزرا؟اور دوسری طرف علی محمد ملّاں بھی قسم کے لئے بلایا جائے گا جو ایک مخالف بلکہ ایک نہایت خبیث مخالف کا بھائی ہے۔ (۳) اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک دفعہ چنداسنگھ نام ایک سکھ پر بابت دو درختان