کے ہندو ہی ہیں۔ وہ محض ناواقف تھا۔ اور جب وہ قادیان میں آیا تو قادیاں کے ہندوؤں نے میری نسبت اس کو یہ کہا کہ یہ جھوٹا اور فریبی ہے۔ ان باتوں کوسُن کر وہ سخت دلیر ہوگیا۔ اور سخت بگڑ گیا۔ اور اپنی زبان کو بدگوئی میں چُھری بنا لیا۔سو وہی چُھری اس کا کام کر گئی۔ خدا کے برگزیدہ اور پاک نبی کو گالیاں دینا اور سچے کو جھوٹا قرار دینا آخر انسان کو سزا کے لائق کر دیتا ہے۔ اگر لیکھرام*نرمی اور تواضع اختیار کرتا تو بچایا جاتا۔ کیونکہ خدا کرؔ یم و رحیم ہے۔ اور سزا دینے میں دھیما ہے۔ مگر ان لوگوں نے اس کو بڑا دھوکہ دیا۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس کی موت کا گناہ قادیان کے ہندوؤں کی گردن پر ہے اور مجھے افسوس ہے
اس جگہ یہ واقعہء قدرت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اگر
حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پند۱۵رہ مہینے میں مر جائے گا۔ اور لیکھرام کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جائے گا۔ پھر چونکہ عبداللہ آتھم پیشگوئی کے دنوں میں بہت روتا رہا اور اس کے دل پر حق کی عظمت غالب آگئی اور اُس نے اس مدّت میں کوئی بُرا لفظ زبان سے نہ کہا۔ اس لئے خدا نے جو رحیم وکریم ہے اُس کی میعاد کو بڑھا دیا اور ؔ وہ کچھ اور قلیل مدت تک زندہ رہ کر مر گیا۔ مگر لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد زبان درازی شروع کی جیسا کہ سفلہ ہندوؤں کی عادت ہے اس لئے اس کی اصل میعاد بھی پوری نہ ہونے پائی اور ابھی میعاد میں ایک سال باقی تھا جو پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا۔ ایسا ہی احمد بیگ کی نسبت پیشگوئی پوری ہونے کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے بہت غم اور خوف ظاہر کیا۔ اسؔ لئے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے داماد کی موت میں تاخیر ڈال دی۔ کیونکہ تمام نبیوں کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب کسی بَلا کے نازل ہونے کی کسی کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ لوگ ڈر جائیں اور دل ان کا خوف سے بھر جائے اور خدا تعالیٰ سے دُعا یا صدقہ خیرات سے رحم چاہیں تو خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے۔ اور اسی اصول کے موافق ہر ایک قوم کے لوگ کسی بلا کے وقت صدقہ خیرات کیا کرتے ہیں۔ منہ