واحداور قہار ہے اور کبریٰ یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجدات ماسوائے اپنے کا خالق ہے۔ نتیجہ یہ ہوا جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ اثبات قضیۂ اولیٰ یعنے صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدائے تعالیٰ کا اصول مسئلہ فریق ثانی بلکہ تمام دنیا کا اُصول ہے۔ اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبریٰ کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہوسکتا۔ واحد اس باعث سے نہیں ہوسکتا کہ وحدانیت کے معنے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلی پاک ہو۔ اور جب خدائے تعالیٰ خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرک لازم آیا۔ اول یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہوکر مثل اس کے قدیم الوجود ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے جو مستفاض عن الغیر نہیں۔ پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے۔ اور شرک بالغیر ذات باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے۔ کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے۔ پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اس باعث سے نہیں ہوسکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنے ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کرلینا اور ان پر قابض اور متصرف ہوجانا۔ سو غیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کرسکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں اس لئے کہ اپنے تحقیق وجود میں دوسری کسی علت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنے خود آئندہ کہتے ہیں۔ پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے۔ تو ان کا باریؔ تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا۔ کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود