بالطبعؔ شاق اور ناگوار گزرتا ہے سو یہ انتظامی امر ہے جو حکیم مطلق نے روح اور جسم کے باہم ملانے کے لئے پہلے سے قائم کردیا ہے اگر روحیں اتفاقی ہوتیں اور کوئی ان کا پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ بے شمار اور کروڑہا روحوں میں سے کوئی بھی ایسی روح نہ پائی جاتی جو مناسبت تعلق بالجسم سے خالی اور اس کے برخلاف ہوتی پھر اگر اتفاق سے یہ مصیبت پیش آجاتی کہ پرمیشر کو سب روحیں ایسی ہی ملتیں جن میں قوت قبولیت تعلق جسم پائی نہ جاتی تو اس صورت میں پرمیشر کیا کرسکتا کس کاریگر کو کہتا کہ ان تمام روحوں کو توڑ کر نئے سرے مجھے ایسی روحیں بنادے جن میں تعلق بالاجسام کی قوت پیدا ہوجائے سو اب لیجئے وہ سب باتیں کاریگری و انتظام وغیرہ کی جو آپ نے ابھی بیان کی تھیں وہ روحوں اور جسم کے ٹکڑوں میں پائی گئیں جس سے بقول آپ کے واجب ہوا کہ ان کا کوئی موجد ضرور ہو۔ سو لو صاحب اب تو آپ پر اقبالی ڈگری ہوگئی۔ اخیر پر ہم آپ کو یہ بھی اطلاع دے دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ کا یہ دعویٰ جو آپ کہتے ہیں کہ اگر تمام ارواح اور جسمی مادوں کو معہ جمیع عجائب و غرائب خواص ان کے کے خودبخود بغیر پیدا کرنے کسی پیدا کنندہ کے سمجھ لیں جیسے اصول آریہ سماج کا ہے یعنی یہ خیال کرلیں کہ ارواح و مواد اجسام معہ جمیع خواص اپنے کے خودبخود ہیں تو اس سے اثبات صانع میں کوئی حرج عائد نہیں ہوسکتا بلکہ جوڑنا جاڑنا جس کے آریہ سماج والے قائل ہیں اثبات صانع کے لئے کافی ہے یہ تقریر آپ کی صاف ثابت کررہی ہے کہ آپ میں فطرتی طور پر مادہ ثبوت غیر ثبوت کی شناخت کرنے کا نہایت ہی کم ہے میں نے آپ کی غلطی اقوال متذکرہ بالا میں کھول دی ہے دانشمند کے لئے تو اسی قدر کافی ہے لیکن میں محض خیرخواہی کے رو سے آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ کو بحث مباحثہ کا شوق ہے تو کسی سے ایک رسالہ منطق کا ضرور پڑھ لیجئے۔ یہ کام مباحثات مناظرات کا بڑا نازک کام ہے اس کے اِنصرام کے لئے صرف جوش مذہبی کافی نہیں ہے اتنا تو ہو کہ انسان دعویٰ اور دلیل میں فرق معلوم کرسکے اور بیہودہ