طور ؔ پر خودبخود ہورہا ہے سو یہی نمونہ کے لئے کافی ہے) اس کا جواب یہ ہے کہ گو پرمیشر کو جوڑتے جاڑتے کسی نے نہیں دیکھا مگر اتفاقی طور پر ملنے والی چیزوں میں انتظام اور کاریگری اور تعلقات ضروریہ نہیں ہوا کرتے جو اب موجود ہیں لہذا ثابت ہے کہ ان چیزوں کا جوڑے جانا خودبخود نہیں بلکہ ان کا جوڑنے جاڑنے والا بڑا منتظم کامل قدرت والا ہے۔
اقول۔ ماسٹر صاحب آپ دہریہ یعنی خدائے تعالیٰ کے منکروں سے کیوں جھگڑا لے بیٹھے درحقیقت آپ لوگ تو تمام ارواح اور اجسام کے ذرّہ ذرّہ کی نسبت یہی مانتے ہیں کہ ان کا وجود اتفاقی طور سے ہے یہ نہیں کہ کسی وقت پرمیشر نے ان کو پیدا کیا ہے سو جبکہ آپ نے روحوں اور اجسام کے ذرّہ ذرّہ کا ہونا خود ہی اتفاقی طور سے مان لیا تو پھر آپ تو دہریوں کے ایسے مددگار ہوئے جن کا انہیں شکر کرنا چاہئے تو پھر ان سے جھگڑا کرنے کا کیا موجب اور بحث مباحثہ کی کیا وجہ؟ یار صادق اور دوست موافق سے بھی کوئی لڑتا جھگڑتا ہے؟
کسی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک شخص ایک جگہ سے زنا کرکے یا شراب پی کر نکلا اور نکلتے ہی اس نے شیطان پر *** بھیجی شیطان بھی اس وقت پاس کھڑا تھا اس نے بہت محبت اور نرمی کی راہ سے کہا کہ اے بھائی تو درپردہ بکلّی میرے موافق اور میرا مددگار اور فرمانبردار اور میری مرضی کے موافق کام کرنے والا ہے تو پھر کیا وجہ کہ بظاہر میرے پر *** بھیجتا ہے اور مجھ سے ناراض ہوتا ہے۔ اسی طرح آریہ سماج والوں کی حالت ہے کہ درحقیقت وہ لوگ دہریہ مذہب پھیلانے کے لئے بڑی کوشش کررہے ہیں اور ان کوششوں کے لحاظ سے دہریوں کے بڑے لائق خدمت گزار انہیں سمجھنا چاہئے۔ لیکن بظاہر دہریوں سے ناراض ہیں یہ ناراضگی اس قسم کی ہے جو ہم نے مثال مذکورہ بالا میں بیان کی ہے بھلا جس حالت میں جو بات دہریوں کے عین مدعا اور مراد تھی یعنی کوئی چیز خدا کی پیدا کردہ نہیں سب چیزیں خدا کی طرح قدیم اور غیر مخلوق ہیں وہ بات تو ان لوگوں نے آپ ہی مان لی اور اپنے مذہب کی