رزا صاحب کے جوڑنے جاڑنے سے بالکل عاجز و بے خبر ہیں اور انادی ہونے کی صورت میں خودبخود ان کا جوڑ جاڑ نہیں ہوسکتا سو اس سے کسی تیسرے بڑی شان والے اور جوڑنے والے کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ وہ وہی ہے جس کو میں سچدانند سروپ اور مرزا صاحب خدائے تعالیٰ کہہ رہے ہیں۔ اقول۔ اے ماسٹر صاحب آپ کی سمجھ اور فہم کی نسبت کیا کہوں اور کیا لکھوں۔ کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر۔ صاحب من میرا سوال تو یہ تھا کہ جس حالت روح اور جسمی مادہ جن کے ذاتی خواص سے فلسفہ میں کتابیں بھری پڑی ہیں بقول آپ لوگوں کے خودبخود ہیں تو پھر دوسری چیزیں جو اپنی مصنوعیت میں روح اور مادہ کے عجائب اور پرحکمت وجود سے کچھ زیادہ نہیں ہیں کیوں محتاج صانع سمجھی جائیں آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ جوڑنا جاڑنا بجز پرمیشر کے خودبخود نہیں ہوسکتا تو گویا آپ کا یہ مذہب ہوا کہ پیدا ہونا بجز خدا کے خودبخود ہوسکتا ہے مگر جوڑنا جاڑنا بغیر اس کے ممکن نہیں سو اسی مذہب پر میں اعتراض کررہا ہوں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا بڑا بھارا کام پیدا کرنا ہے یا جوڑنا۔ ظاہر ہے کہ پیدا کرنا ہی بڑا بھارا کام ہے سو جب آپ لوگوں کی عقل عجیب نے اس بات کو روا رکھ لیا کہ تمام ارواح و مواد معہ جمیع خواص و عجائبات اپنے کے بغیر پیدا کرنے کسی پیدا کنندہ کے خودبخود قدیم سے ہیں تو آپ پر لازم آتا ہے کہ آپ بعض اشیاء کا بعض سے خودبخود جوڑے جانا بھی روا رکھ لیں کیونکہ جوڑنا جاڑنا اصل ایجاد اشیاء کی نسبت ایک ناکارہ کام ہے سو وہ بوجہ اولیٰ خودبخود ہونا چاہئے۔ میرا تو یہ مذہب نہیں ہے کہ جوڑے جانا یا پیدا ہونا خودبخود ہوسکتا ہے تا مجھے آپ بار بار کہیں کہ کوئی دانۂ گندم یا دانۂ باجرہ ہی بنا کر دکھلاؤ میں تو آپ کے ہی مذہب پر رورہا ہوں کہ جس حالت میں ایک دانہ گندم یا ایک دانہ باجرہ نہ خودبخود بن سکتا ہے نہ اس کو