ہندوؔ ؤں کے پرمیشر میں ایجادی قدرت نہیں تو اگر اس شہد کی مکھی کی طرح صرف جوڑنا جاڑنا اس کا بے نظیر بھی ہوا تو بھلا یہ کیا کمال ہوا۔ اس جگہ کوئی انجان یہ دھوکا نہ کھائے کہ آریہ سماج والے تو اس بات کو مانتے ہیں کہ گو پرمیشر پیدا کرنے پر قادر نہیں لیکن وہ اجسام اور ارواح کے جوڑنے جاڑنے سے طرح طرح کی مفید چیزیں تو بناتا ہے جیسے اس نے چاند بنایا سورج بنایا زمین کو عمدگی سے بچھایا انسان کو آنکھیں دیں کان دیئے قوت ناطقہ شامہ بخشی سوکیا ایسے ایسے عجائب کاموں سے اس کی قدرت ثابت نہیں ہوتی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ علمی وسعت پر موقوف ہے ایجادی قدرت جو کسی شے اور اس کے خاصہ کو عدم سے پیدا کرنے کو کہتے ہیں وہ اسی قدر فعل سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ وہ تب ہی ثابت ہوتی ہے کہ جب ساتھ اس کے یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ خدائے تعالیٰ صرف اشیاء کا جوڑنے جاڑنے والا نہیں بلکہ وہ ان تمام اشیاء اور ان کے جمیع خواص کو پیدا کرنے والا بھی ہے کیونکہ اگر ایسا تسلیم نہ کیا جائے اور خدائے تعالیٰ کا صرف اسی قدر اختیار و اقتدار سمجھا جائے کہ وہ بعض اشیاء کو بعض سے پیوند کرکے ان کے اصلی خواص کو متجلی کرکے دکھا دیتا ہے تو اس سے صرف اس کے معلومات کی فراخی ثابت ہوتی ہے نہ قادریت کاملہ۔ وجہ یہ کہ جب جمیع اشیاء خودبخود قدیم سے موجود مان لی جائیں تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان اشیاء کے خواص بھی جو بحالت بساطت مخفی طور پر ان میں پائے جاتے ہیں یا بحالت ترکیب کھلے کھلے طور پر ان سے ظہور میں آتے ہیں وہ بھی سب قدیم ہی ہیں گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں۔ مثلاً خدائے تعالیٰ نے جو آنکھوں کو نہایت عجیب طور سے بنایا ہے سو اس میں یہ خیال نہیں ہوسکتا کہ آنکھوں کی صرف مجموعی ترکیب کے پیدا ہونے کے بعد خاصہ رؤیت اس میں پیدا ہوگیا ہے بلکہ صحیح فلاسفی اس میں یہ ہے کہ جو کچھ مجموعی ترکیب میں رؤیت پیدا ہونے کا نتیجہ نکلا ہے وہ نتیجہ مخفی طور پر ان تمام اجزا میں پایا جاتا تھا۔ جو پیچھے سے رطوبات و طبقات اور