خیال کرتا ہے کہ مَیں نے بڑا ثواب کا کام کیا ہے اور جو مجھے کاذب کاذب کہتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے خدا کو خوش کر دیا۔ اَے وے لوگو! جن کو صبر اور تقویٰ کی تعلیم دی گئی تھی۔ تمہیں جلد بازی اور بدظنّی کس نے سکھلائی۔ کونسا نشان ہے جو خدا نے ظاہر نہ کیا اور کونسی دلیل ہے جو خدا نے پیش نہ کی مگر تم نے قبول نہ کیا اور خدا کے حکموں کو دلیری سے ٹال دیا۔ مَیں اِس زمانہ کے حیلہ گر لوگوں کو کس سے تشبیہ دوں۔ وہ اُس مکّار سے مشابہ ہیں کہ روز روشن میں آنکھیں بند کر کے کہتا ہے کہ سورج کہاں ہے۔ اے اپنے نفس کے دھوکہ دینے والے!اوّل اپنی آنکھ کھول۔ پھر تجھے سورج دکھائی دے دے گا۔ خدا کے مرسل کو کافر کہنا سہل ہے مگر ایمان کی باریک راہوں میں اس کی پیروی کرنا مشکل ہے۔ خدا کے فرستادہ کو دجّال کہنا بہت ؔ آسان ہے مگر اس کی تعلیم کے موافق تنگ دروازہ میں سے داخل ہونا یہ دشوار امر ہے۔ ہر ایک جو کہتا ہے کہ مجھے مسیح موعود کی پرواہ نہیں ہے اُس کو ایمان کی پرواہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ حقیقی ایمان اور نجات اور سچی پاکیزگی سے لاپروا ہ ہیں۔ اگر وہ ذرا انصاف سے کام لیں اور اپنے اندرونی حالات پر نظر ڈالیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ بغیر اِس تازہ یقین کے جو خدا کے مرسلوں اور نبیوں کے ذریعہ سے آسمان سے نازل ہوتا ہے۔ اُن کی نمازیں صرف رسم اور عادت سے ہیں اور اُن کے روزے صرف فاقہ کشی ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان نہ تو واقعی طور پر گناہ سے نجات پا سکتا ہے اور نہ سچے طور پر خدا سے محبت کر سکتا ہے اور نہ جیسا کہ حق ہے اس سے ڈر سکتا ہے جب تک کہ اُسی کے فضل اور کرم سے اُس کی معرفت حاصل نہ ہو اور اس سے طاقت نہ ملے اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے کہ ہر ایک خوف اور محبت معرفت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں جن سے انسان دل لگاتا ہے اور اُن سے محبت کرتا ہے یا اُن سے ڈرتا ہے اور دُور بھاگتا ہے۔ یہ سب حالات انسان کے دل کے اندر معرفت کے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔