براہِ راست ملتی ہے*۔اس کا دروازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی اُمّتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اورحضرت محمدؐکی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اُتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمّتی ہیں اور اُن کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چراغِ نبوّت محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلّف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے۔ اُس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغِ نبوّت سے مستفاد ہے۔ اور اگر اس کی نبوّت چراغِ نبوت محمدیہ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے اُمّتی کہلائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اُمّت کے معنے کسی پر صادق نہیں آسکتے جب تک ہر ایک کمال اُس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو۔ پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ اُمّتی کیونکر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا جس کے لئے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ اور اگر کہو کہ پہلی نبوت اُس کی جو براہِ راست تھی۔ دُور کی جائے گی اور اب از سرِ نو باتباع نبوی نئی نبوت اس کو ملے گی جیسا کہ منشاء آیت کا ہے۔ توپھر اِس صورت میں یہی اُمّت جو خیرالامم کہلاتی ہے حق رکھتی ہے کہ ان میں سے کوئی فرد بیمُنؔ اتباع نبویؐ اِس مرتبہ ممکنہ کو پہنچ جائے اور حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُتارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر اُمّتی کو بذریعہ انوار محمدی کمالات نبوت مل سکتے ہیں تو اِس صورت میں کسی کو آسمان سے اُتارنا اصل حقدار کا حق ضائع کرناہے اور کون مانع ہے جو کسی اُمّتی کو فیض پہنچایا جائے۔ تانمونہ فیض محمدی کسی پر مشتبہ نہ رہے کیونکہ نبی کو نبی بنانا کیا معنی رکھتا ہے۔مثلاً * * بعض نیم مُلّا میرے پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ تم میں تیس ۳۰ دجّال آئیں گے۔ اور ہر ایک اُن میں سے نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ اِس کا جواب یہی ہے کہ اے نادانو! بد نصیبو!! کیا تمہاری قسمت میں تیس ۳۰ دجّال ہی لکھے ہوئے تھے۔ چودھو۱۴ یں صدی کا خمس بھی گزرنے پر ہے اور خلافت کے چاند نے اپنے کمال کی چودہ منزلیں پوری کرلیں جس کی طرف آیت 3 ۱؂ بھی اشارہ کرتی ہے اور دنیا ختم ہونے لگی مگر تم لوگوں کے دجّال ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے شاید تمہاری موت تک تمہارے ساتھ رہیں گے۔ اے نادانو! وہ دجّال جو شیطان کہلاتا ہے وہ خود تمہارے اندر ہے۔ اس لئے تم وقت کو نہیں پہنچانتے۔آسمانی نشانوں کو نہیں دیکھتے۔ مگر تم پر کیا افسوس وہ جو میری طرح موسیٰ کے بعد چودھو۱۴ یں صدی میں ظاہر ہوا تھا اُس کا نام بھی خبیث یہودیوں نے دجّال ہی رکھا تھا۔ فالقلوب تشابہت اللّٰھُمَّ ارحم۔ منہ